دنیا بھر میں حکمرانوں کی پریس کانفرنسز عام بات سمجھی جاتی ہیں، مگر جب کوئی صدر لگاتار پندرہ گھنٹے تک عوام اور صحافیوں کے سوالات کے جواب دیتا رہے، تو یہ ایک غیر معمولی واقعہ بن جاتا ہے۔ کچھ ایسا ہی 3 مئی 2025 کو مالدیپ میں ہوا، جب صدر محمد معیظو نے دنیا کی سب سے طویل صدارتی پریس کانفرنس منعقد کر کے تاریخ رقم کر دی۔
یہ پریس کانفرنس عالمی یومِ آزادیِ صحافت کے موقع پر ہوئی، جس کا مقصد صحافیوں کے سوالات کا شفاف انداز میں جواب دینا، عوام سے براہِ راست رابطہ قائم کرنا اور حکومت کے اقدامات پر وضاحت دینا تھا۔ آئیے اس اہم اور منفرد واقعے پر تفصیل سے نظر ڈالتے ہیں۔
15 گھنٹے کی پریس کانفرنس – ایک نیا عالمی ریکارڈ
صدر محمد معیظو نے یہ پریس کانفرنس دارالحکومت مالے میں صبح 10 بجے شروع کی، اور یہ رات 12 بج کر 54 منٹ پر اختتام پذیر ہوئی۔ اس دوران وہ مسلسل صحافیوں اور عوامی نمائندوں کے سوالات کے جواب دیتے رہے۔
کل دورانیہ: 14 گھنٹے 54 منٹ
وقفے: صرف نماز کے لیے مختصر وقفے لیے گئے
مقام: مالے، مالدیپ
تاریخ: 3 مئی 2025
صدر نے اس پریس کانفرنس کے دوران ملکی معیشت، تعلیم، صحت، مہنگائی، سیاحت، خارجہ پالیسی، عدالتی اصلاحات، اور آئندہ انتخابات کے حوالے سے تفصیلی جوابات دیے۔ صحافیوں کو مکمل آزادی دی گئی کہ وہ جو چاہیں سوال کریں، جس سے صحافت کی آزادی کا عملی مظاہرہ ہوا۔
پچھلا ریکارڈ کس کے پاس تھا؟
اس سے قبل دنیا کی سب سے طویل صدارتی پریس کانفرنس کا ریکارڈ یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی کے پاس تھا۔ انہوں نے 2019 میں 14 گھنٹے تک ایک پریس کانفرنس کی تھی، جو کیف میں ایک کیفے میں منعقد ہوئی تھی۔ اس میں مختلف میڈیا گروپس نے باری باری شرکت کی اور صدر نے تمام سوالات کا تسلی بخش جواب دیا تھا۔
روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کی طویل پریس کانفرنسز بھی مشہور ہیں، جو بعض اوقات 4 سے 5 گھنٹے تک جاری رہتی ہیں۔ 2008 اور 2020 میں ان کی طویل پریس کانفرنسز عالمی میڈیا میں زیرِ بحث رہیں۔
پاکستان اور بھارت میں پریس کانفرنسز کا انداز
جنوبی ایشیا میں حکومتی رہنماؤں کی پریس کانفرنسز عمومی طور پر مختصر دورانیے کی ہوتی ہیں۔ پاکستان میں وزرائے اعظم اور صدور کی پریس کانفرنسز عمومی طور پر 45 منٹ سے ایک گھنٹے کے درمیان رہتی ہیں، اور اکثر صرف مخصوص میڈیا ہاؤسز یا صحافیوں کو مدعو کیا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر
سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے بطور وزیرِ اعظم متعدد پریس کانفرنسز کیں، جن میں سے سب سے طویل تقریباً 90 منٹ کی رہی۔
موجودہ یا سابقہ صدور جیسے ڈاکٹر عارف علوی یا ممنون حسین کی پریس کانفرنسز عموماً رسمی ہوتی ہیں اور محدود سوالات تک محدود رہتی ہیں۔
بھارت میں وزیرِ اعظم نریندر مودی نے اپنے عہد کے دوران بہت کم براہِ راست پریس کانفرنسز کی ہیں۔ 2019 میں ایک یادگار پریس کانفرنس میں وہ صرف موجود رہے لیکن تمام سوالات کا جواب اُس وقت کے بی جے پی صدر امت شاہ نے دیا۔ بھارت میں پریس بریفنگز عام ہیں، مگر براہِ راست اور طویل پریس کانفرنسز شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔
یہ پریس کانفرنس کیوں وائرل ہوئی؟
یہ پریس کانفرنس کئی وجوہات کی بنا پر سوشل میڈیا اور عالمی میڈیا پر وائرل ہو گئی:
ریکارڈ توڑ دورانیہ: 15 گھنٹے کی مسلسل گفتگو ایک غیر معمولی بات تھی۔
صحافیوں کی مکمل آزادی: سخت سوالات پر بھی صدر نے کھلے دل سے جواب دیا۔
عالمی دن کی مناسبت: پریس کی آزادی کے عالمی دن پر یہ اقدام ایک علامتی پیغام تھا۔
حکومتی شفافیت کا عملی مظاہرہ: صدر نے واضح کیا کہ حکومت عوام کے سامنے جواب دہ ہے۔
بین الاقوامی کوریج: NDTV، Al Jazeera، BBC، Times of India، اور دیگر عالمی اداروں نے اس کو نمایاں طور پر رپورٹ کیا۔
سوشل میڈیا پر ردعمل
ٹوئٹر، فیس بک، انسٹاگرام اور یوٹیوب پر یہ خبر تیزی سے پھیلی۔ لاکھوں صارفین نے صدر محمد معیظو کے اس اقدام کو سراہا۔ ہیش ٹیگ #MuizzuPressMarathon دنیا بھر میں ٹرینڈ کرنے لگا۔
بہت سے صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور میڈیا تنظیموں نے اس اقدام کو جمہوریت کی مضبوطی کی علامت قرار دیا۔
کیا یہ صرف ایک علامتی قدم ہے؟
کچھ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ یہ پریس کانفرنس صرف علامتی نہیں بلکہ عملی تبدیلی کا آغاز ہے۔ اس میں صدر نے کئی پالیسیوں کی وضاحت کی اور آنے والے اصلاحات کا عندیہ دیا۔
یہ ایک ایسا ماڈل ہے جسے دیگر ممالک کے سربراہان بھی اپنا سکتے ہیں تاکہ عوام کے ساتھ براہ راست شفاف تعلق قائم ہو سکے۔
مالدیپ کی صحافت کی صورتحال میں بہتری
رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز (RSF) کے مطابق 2025 میں مالدیپ کا پریس فریڈم انڈیکس 180 ممالک میں سے 104ویں پوزیشن پر آ گیا، جو گذشتہ برسوں کی نسبت ایک بڑی بہتری ہے۔
یہ پریس کانفرنس اس بہتری کی عملی مثال ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اظہارِ رائے اور میڈیا کی آزادی کو سنجیدگی سے لے رہی ہے۔
دیگر ممالک کا موازنہ
امریکہ میں صدر کی پریس کانفرنسز اکثر 45 سے 90 منٹ تک جاری رہتی ہیں، مگر سوالات کی تعداد محدود ہوتی ہے۔ وائٹ ہاؤس روزانہ کی بنیاد پر پریس بریفنگز دیتا ہے۔
چین میں پریس کانفرنسز مکمل طور پر اسکرپٹڈ ہوتی ہیں، جہاں پیشگی منتخب سوالات اور جوابات دیے جاتے ہیں۔
فرانس اور جرمنی جیسے ممالک میں سالانہ یا نصف سالانہ پریس کانفرنسز ہوتی ہیں جن میں حکومتی کارکردگی کا جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔
ایک تاریخی لمحہ
صدر محمد معیظو کی یہ 15 گھنٹے طویل پریس کانفرنس صرف ایک ریکارڈ نہیں، بلکہ عوام سے براہِ راست رابطے کا ایک مثالی قدم ہے۔ ایسے اقدامات جمہوریت کو مضبوط کرتے ہیں، صحافت کو اعتماد دیتے ہیں، اور دنیا کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ جواب دہ حکومتیں ہی حقیقی عوامی حکومتیں ہوتی ہیں۔
یہ واقعہ نہ صرف مالدیپ بلکہ دنیا بھر کے لیے ایک مثبت مثال ہے، جو بتاتا ہے کہ جدید دور میں لیڈرشپ کا مطلب صرف اقتدار نہیں، بلکہ شفافیت، سنجیدگی اور عوامی خدمت ہے۔
0 Comments