خوابوں کے محل اور حقیقت کی دھند
جب کوئی قوم بحرانوں میں گھری ہو، معیشت تباہ حال ہو، اور عوام بنیادی سہولیات کے لیے ترس رہے ہوں، تو ایسے میں اگر حکمران نمائشی منصوبوں کی خوشنما تصویریں کھینچیں تو یہ ترقی نہیں بلکہ تماشہ بن جاتا ہے۔
پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز نے حال ہی میں بلٹ ٹرین اور پنجاب ائرلائن کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔ بظاہر یہ خواب بڑے دلکش ہیں، لیکن جب زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو ان کا اصل چہرہ نمایاں ہو جاتا ہے۔
وفاقی ذمہ داریاں اور صوبائی مداخلت: ایک سوالیہ نشان
ریلوے اور ائرلائنز جیسے بڑے ادارے ہمیشہ وفاقی حکومت کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔
پاکستان میں ریلوے اور قومی ائرلائن (PIA) وفاق کی تحویل میں ہیں، اور افسوس کی بات یہ ہے کہ دونوں ہی تباہی کے دہانے پر ہیں۔
پاکستان ریلوے مسلسل خسارے میں جا رہا ہے اور PIA کی نجکاری کا عمل شروع ہو چکا ہے۔
ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب وفاقی حکومت، جس میں خود نون لیگ بھی شامل ہے، اپنے موجودہ ادارے سنبھالنے سے قاصر ہے، تو پھر پنجاب حکومت کو نئی ائرلائن اور بلٹ ٹرین شروع کرنے کا شوق کیوں چرایا ہے؟
نمائشی سیاست: اصل ترقی یا دکھاوا؟
مریم نواز کے یہ نئے منصوبے دراصل نمائشی سیاست کی ایک واضح مثال ہیں۔
ترقی کا مطلب یہ نہیں کہ بغیر کسی تیاری اور مالی وسائل کے بڑے بڑے منصوبے شروع کیے جائیں۔
اصل ترقی تو یہ ہے کہ پہلے موجودہ اداروں کو بہتر بنایا جائے، عوام کی بنیادی ضروریات پوری کی جائیں اور پھر نئے خواب دیکھے جائیں۔
لیکن یہاں تو معاملہ الٹ ہے — پہلے خواب بیچے جا رہے ہیں، بعد میں حقیقت کا سامنا ہوگا۔
موجودہ حالت: ریلوے اور PIA کی تباہ حالی
پاکستان ریلوے اس وقت شدید مالی بحران کا شکار ہے۔ ٹرینوں کی تاخیر، پرانی بوگیاں، خراب ٹریکس اور حادثات معمول بن چکے ہیں۔
اسی طرح پاکستان ائرلائنز کبھی ملکی فخر ہوا کرتی تھی، مگر آج یہ اپنے قرضوں اور بدانتظامی کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔
یہ دونوں ادارے صرف نام کے رہ گئے ہیں اور عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والی بیماریاں بن چکے ہیں۔
کیا پنجاب ائرلائن اور بلٹ ٹرین کامیاب ہو پائیں گے؟
جب بنیادی ادارے ہی اپنے وزن سے گر رہے ہوں، تو ایسے میں نئی کمپنی یا نئی ٹرین چلانا ہوائی قلعے تعمیر کرنے کے مترادف ہے۔
کیا پنجاب حکومت کے پاس اتنے مالی وسائل ہیں کہ وہ ایک مکمل ائرلائن چلا سکے؟
کیا بلٹ ٹرین کے لیے درکار اربوں روپے کا بجٹ موجود ہے؟
یہ سوالات جواب مانگتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے حکمران طبقہ جواب دینے کے بجائے صرف خواب بیچنے میں مصروف ہے۔
صوبوں میں وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم
یہ ایک اور افسوسناک پہلو ہے کہ جب پنجاب میں نمائشی منصوبے بنائے جا رہے ہیں،
تو دوسرے صوبے پینے کے پانی، تعلیم اور صحت جیسی بنیادی ضروریات کے لیے ترس رہے ہیں۔
کیا یہی نیا پاکستان ہے جس کا وعدہ کیا گیا تھا؟
کیا یہ رویہ قومی یکجہتی کو مزید نقصان نہیں پہنچائے گا؟
عوام کا اصل مطالبہ: بنیادی سہولیات
عوام کسی بلٹ ٹرین یا ائرلائن کا خواب نہیں دیکھ رہے۔
عام پاکستانی آج روزگار، صحت، تعلیم، صاف پانی اور انصاف مانگ رہا ہے۔
مگر بدقسمتی سے حکمران طبقہ ان بنیادی مطالبات کو پس پشت ڈال کر نمائشی منصوبوں کی چمک میں اپنی سیاست چمکانے میں مصروف ہے۔
ترقی کیسے ممکن ہے؟
ترقی کا اصل راستہ یہی ہے کہ پہلے موجودہ اداروں کی اصلاح کی جائے۔
پاکستان ریلوے اور PIA جیسے اداروں کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے۔
سرکاری اسکولوں اور اسپتالوں کی حالت بہتر بنائی جائے۔
صاف پانی، سستی بجلی اور محفوظ ٹرانسپورٹ کی فراہمی کو ترجیح دی جائے۔
نمائش کے منصوبے کب تک؟
یہ پہلا موقع نہیں کہ نمائشی منصوبے شروع کیے جا رہے ہیں۔
ماضی میں بھی میٹرو بس، اورنج لائن اور دیگر بڑے منصوبے بنا کر وقتی داد تو وصول کی گئی، لیکن ان کے طویل المدتی اثرات بہت منفی نکلے۔
اربوں روپے کے قرضے لیے گئے اور آج ان کے سود کی ادائیگی عوام کے کندھوں پر بوجھ بن چکی ہے۔
قومی وسائل کی ضیاع: ایک خطرناک رجحان
جب ایک ریاست اپنے وسائل صرف دکھاوے کے منصوبوں پر لگانا شروع کر دے تو یہ قومی معیشت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔
ایسے اقدامات وقتی سیاسی فوائد تو دے سکتے ہیں، مگر ملک کو مستقل بنیادوں پر بحرانوں میں دھکیل دیتے ہیں۔
حقیقت کا سامنا کیجیے
مریم نواز کے بلٹ ٹرین اور پنجاب ائرلائن جیسے منصوبے بظاہر دلکش ہیں، مگر حقیقت میں یہ محض نمائشی سیاست کا حصہ ہیں۔
پاکستان کو آج کھوکھلے خوابوں نہیں، بلکہ ٹھوس منصوبہ بندی، ایمانداری اور قومی یکجہتی کی ضرورت ہے۔
ایسی ترقی جو عوام کے حقیقی مسائل کو حل کرے، نہ کہ صرف تصویروں میں دکھائی دے۔
ترقی تصویروں اور فیتہ کاٹنے سے نہیں ہوتی۔
ترقی سچائی، دیانت، خلوص نیت اور محنت سے ہوتی ہے۔
کاش ہمارے حکمران یہ حقیقت سمجھ سکیں اور پاکستان کو واقعی ایک خوشحال ریاست بنانے کے لیے سنجیدہ کوشش کریں۔
0 Comments