جنوبی ایشیا کی سیاست، تاریخ اور بین الاقوامی تعلقات کا تجزیہ کیا جائے تو پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات سب سے زیادہ پیچیدہ اور جذباتی رہے ہیں۔ خاص طور پر بنگلہ دیش، جو 1971 میں پاکستان سے علیحدہ ہو کر ایک خودمختار ملک کے طور پر ابھرا، پاک-بھارت کشمکش میں ہمیشہ ایک اہم لیکن حساس کردار کا حامل رہا ہے۔
2025 میں ہم ایک ایسے وقت میں داخل ہو چکے ہیں جب بنگلہ دیش کی سیاست اور خارجہ پالیسی میں بڑی تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ شیخ حسینہ واجد کی دہائیوں پر محیط حکومت کے خاتمے کے بعد اب وہاں ایک عبوری حکومت قائم ہے، جو ملک کو بھارت کے اثر سے نکال کر ایک آزاد اور متوازن خارجہ پالیسی کی طرف لے جانے کی خواہاں ہے۔
ماضی کی سیاست: بنگلہ دیش بھارت کے سائے میں
حسینہ واجد کی قیادت میں بنگلہ دیش نے بھارت کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کیے۔ زمینی، آبی، اور دفاعی معاملات میں بھارت کو ترجیح دی گئی، اور اکثر اوقات یہ تعلقات یکطرفہ فائدے پر مبنی دکھائی دیے۔ بھارت کو چٹاگانگ بندرگاہ تک رسائی، اندرونی راستوں میں نقل و حمل کی سہولت، اور سفارتی محاذ پر اعتماد حاصل رہا، جبکہ بنگلہ دیش کو بسا اوقات صرف بھارت کی منظوری کی خواہش پر اکتفا کرنا پڑا۔
پاکستان کے ساتھ تعلقات اس دور میں تقریباً منقطع ہی رہے۔ ماضی کی تلخیوں، خصوصاً 1971 کے سانحے کو بنیاد بنا کر پاکستان مخالف جذبات کو فروغ دیا گیا۔ پاکستانی اشیاء پر غیر اعلانیہ پابندیاں، ویزہ محدودیت، اور تعلیمی و ثقافتی رابطوں کی بندش عام رہی۔ عوامی سطح پر بھی نفسیاتی دیوار کھڑی کی گئی، جس نے برادر مسلم ملکوں کے درمیان دوریاں بڑھائیں۔
عبوری حکومت کا قیام: ایک نئی سیاسی فضا
2024 کے اواخر میں بنگلہ دیش کی سیاسی صورتحال میں ایک اہم موڑ آیا۔ عوامی لیگ کے خلاف اندرونی مزاحمت، بین الاقوامی تنقید، اور عوامی بے چینی کے سبب شیخ حسینہ کی حکومت تحلیل ہوئی، اور ایک عبوری حکومت تشکیل دی گئی۔ اس عبوری سیٹ اپ نے ابتدائی دنوں میں ہی واضح کر دیا کہ وہ بھارت کی گود میں بیٹھ کر سیاست کرنے کے بجائے ایک خودمختار خارجہ پالیسی کی راہ اپنانا چاہتے ہیں۔
اس نئی حکومت نے پاکستان سمیت تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ متوازن تعلقات کی بات کی۔ ایسے بیانات سامنے آئے جن میں پاکستان کے ساتھ تجارتی تعاون، طلبہ تبادلے، اور ثقافتی روابط کی بات کی گئی۔ بھارت کے ساتھ بھی تعلقات کو برابری کی بنیاد پر استوار کرنے پر زور دیا گیا۔
تجارت: ترقی کا مشترکہ موقع
بنگلہ دیش اور پاکستان دونوں ترقی پذیر ممالک ہیں، اور ان کی معیشتیں برآمدات پر انحصار کرتی ہیں۔ پاکستان کھیلوں کا سامان، چاول، کپاس، فارماسیوٹیکل مصنوعات، اور سیمنٹ جیسے شعبوں میں مستحکم ہے، جب کہ بنگلہ دیش گارمنٹس، لیدر مصنوعات، جوتے، اور زرعی اشیاء کے میدان میں نمایاں ہے۔
اگر دونوں ممالک کے درمیان تجارتی رکاوٹیں، خصوصاً ویزہ مسائل، کسٹمز پابندیاں اور فضائی/زمینی راستوں کی قلت کو دور کیا جائے، تو دوطرفہ تجارت کئی گنا بڑھ سکتی ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش مل کر جنوبی ایشیا میں اقتصادی بلاک کا تصور بھی عملی جامہ پہنا سکتے ہیں، جو نہ صرف ان کے لیے بلکہ خطے کے لیے بھی فائدہ مند ہوگا۔
عوامی رابطے اور سافٹ ڈپلومیسی کا کردار
موجودہ دور میں سرکاری تعلقات سے زیادہ اثر عوامی رابطوں کا ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا، یوٹیوب، تعلیمی تبادلے، اور مشترکہ ثقافتی منصوبے وہ پلیٹ فارم ہیں جو عوام کو قریب لا سکتے ہیں۔ پاکستانی اور بنگلہ دیشی نوجوانوں کے درمیان فیشن، موسیقی، کھانوں، مذہبی روایات، اور تاریخی تجربات کے حوالے سے بہت سی قدریں مشترک ہیں۔
اگر حکومتیں تعلیمی ویزہ پالیسی میں نرمی کریں، فنکاروں کو ایک دوسرے کے ممالک میں پرفارم کرنے کا موقع دیں، اور کرکٹ جیسی عوامی دلچسپی کی سرگرمیوں کو فروغ دیں، تو عوامی سطح پر قربت بڑھائی جا سکتی ہے۔ یہ سافٹ ڈپلومیسی مستقبل میں کسی بھی تنازع سے بچاؤ کے لیے مضبوط بنیاد فراہم کر سکتی ہے۔
پاک-بھارت تناؤ میں بنگلہ دیش کا نیا توازن
پاکستان اور بھارت کے درمیان تاریخی دشمنی، سرحدی تنازعات، کشمیر کا مسئلہ، اور میڈیا پر ایک دوسرے کے خلاف بیانیہ عام ہے۔ ماضی میں بنگلہ دیش نے زیادہ تر بھارت کے مؤقف کی حمایت کی، لیکن حالیہ عبوری حکومت نے اپنی پالیسی کو زیادہ غیر جانبدار بنانے کی کوشش کی ہے۔
اب بنگلہ دیش نہ صرف پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی بات کر رہا ہے بلکہ چین، ترکی، ملائیشیا، اور عرب دنیا کے ساتھ بھی سفارتی اور تجارتی تعلقات کو وسعت دے رہا ہے۔ یہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ بنگلہ دیش ایک متوازن علاقائی طاقت بننے کی خواہش رکھتا ہے جو کسی ایک ملک کی جھولی میں گرنے کے بجائے باوقار انداز میں خارجہ پالیسی اپنائے۔
کیا پاکستان اس موقع سے فائدہ اٹھا سکتا ہے؟
پاکستان کے لیے یہ وقت بہت اہم ہے۔ اگر بنگلہ دیش واقعی ایک نیا باب کھولنے کا خواہاں ہے، تو پاکستان کو بھی روایتی بیانیے سے ہٹ کر عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ اس میں سفارت کاری کو فعال بنانا، ویزہ پابندیاں کم کرنا، تعلیمی اداروں کے درمیان معاہدے کرنا، میڈیا تعاون کو فروغ دینا، اور مشترکہ کاروباری فورمز قائم کرنا شامل ہے۔
پاکستان کو یہ سمجھنا ہو گا کہ بنگلہ دیش اب 1971 کا نیا ملک نہیں رہا بلکہ ایک اہم علاقائی کھلاڑی ہے، جس کے ساتھ مثبت تعلقات صرف ماضی کی غلطیوں کو درست کرنے کا موقع نہیں بلکہ مستقبل کی کامیابی کی کنجی بھی بن سکتے ہیں۔
ایک نیا آغاز، ایک نئی امید
بنگلہ دیش اس وقت ایک نازک مگر انقلابی دور سے گزر رہا ہے۔ عبوری حکومت کے پاس یہ تاریخی موقع ہے کہ وہ ملک کو بھارت کے سائے سے نکالے اور ایک آزاد، خودمختار اور متوازن ریاست کے طور پر ابھارے۔
پاکستان کو بھی اپنے دروازے کھولنے چاہییں، پرانی تلخیوں کو دفن کر کے نئی راہیں ہموار کرنی چاہییں۔ جب تینوں ممالک — پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش — تعاون اور امن کی طرف قدم بڑھائیں گے، تو نہ صرف جنوبی ایشیا ترقی کرے گا بلکہ دنیا بھی ایک نئے، پرامن اور باہم جڑے ہوئے ایشیا کا مشاہدہ کرے گی۔
0 Comments