دنیا میں بہت سے ممالک ہیں جو غربت، بدامنی اور مسائل کا شکار ہیں، مگر کچھ قومیں اپنے عزم، غیرت اور سچائی سے دنیا کو حیران کر دیتی ہیں۔ ان ہی میں سے ایک ملک نائجیریا ہے۔ بظاہر ایک کمزور اور مسائل میں گھرا ہوا ملک، مگر اس نے حال ہی میں ایک ایسا کام کر دکھایا ہے جو بڑی بڑی معیشتیں بھی نہیں کر پاتیں۔
نائجیریا نے حالیہ دنوں میں عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے لیا گیا 3.4 ارب ڈالر کا قرض مکمل طور پر واپس کر دیا ہے۔ یہ قرض کرونا وبا کے دوران لیا گیا تھا تاکہ ملک کی معیشت کو سنبھالا جا سکے۔ دنیا میں جب بیشتر ممالک قرضوں میں دھنستے جا رہے ہیں، وہاں نائجیریا نے ایک روشن مثال قائم کر کے یہ ثابت کر دیا کہ اگر نیت صاف ہو اور عزم مضبوط ہو، تو کچھ بھی ناممکن نہیں۔
یہ صرف قرض کی ادائیگی نہیں، کردار کی جیت ہے
نائجیریا کا یہ عمل صرف ایک معاشی معاملہ نہیں بلکہ ایک اخلاقی اور قومی غیرت کا پیغام ہے۔ جب کوئی قوم مشکل وقت میں بھی اپنے وعدے پر قائم رہتی ہے، تو وہ دنیا کے سامنے اپنا اعتبار اور وقار بڑھاتی ہے۔ نائجیریا نے دکھا دیا کہ ہم کمزور سہی، مگر جھوٹے نہیں۔ ہم غریب سہی، مگر بدعہد نہیں۔
یہ سبق ہم سب کے لیے ہے۔ خاص طور پر ہمارے لیے جو اکثر دنیا سے گلہ کرتے ہیں کہ ہمیں عزت نہیں ملتی، ہماری بات نہیں سنی جاتی، ہمیں دنیا سنجیدہ نہیں لیتی۔ سوال یہ ہے: ہم خود اپنے وعدوں کے ساتھ کتنے سنجیدہ ہیں؟ ہم خود کتنے باعزت ہیں؟ کیا ہم نے کبھی اپنے کیے ہوئے وعدوں کو نبھانے کی پوری کوشش کی ہے؟
پاکستان کی حالت: ہم کہاں کھڑے ہیں؟
اب ہمیں اپنی حالت پر بھی نظر ڈالنی ہوگی۔ ہمارا ملک کئی دہائیوں سے قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ ہر نئی حکومت نئے قرض لیتی ہے، پرانے قرض معاف کراتی ہے، یا ان کی مدت بڑھاتی ہے۔ ہم بینکوں سے قرض لیتے ہیں اور سیاسی دباؤ کے ذریعے انہیں معاف بھی کرا لیتے ہیں۔ ہم بل ادا نہیں کرتے، ٹیکس نہیں دیتے، لیکن سہولیات کی امید رکھتے ہیں۔
ہم خود کو دنیا کی عظیم قوموں میں شمار کرتے ہیں، لیکن ہمارا رویہ کیا ہے؟ ہم وعدہ کریں تو اسے توڑنے میں دیر نہیں کرتے۔ ہم امانت رکھیں تو اسے واپس کرنے میں جھجکتے ہیں۔ ہم دوسروں پر تو تنقید کرتے ہیں، مگر خود احتسابی کو بھول چکے ہیں۔
کیا ہمیں سبق سیکھنے کی ضرورت ہے؟
یقینی طور پر! نائجیریا کا یہ عمل ہمیں سبق دیتا ہے کہ عزت اور خودداری محض نعروں سے نہیں آتی۔ یہ ایک طرزِ زندگی، ایک رویہ، ایک سوچ ہوتی ہے۔ جب کوئی قوم اپنی بات پر قائم رہے، اپنی ذمہ داریاں نبھائے، اپنے وعدوں کا پاس رکھے، تو دنیا اسے سنجیدگی سے لیتی ہے۔ اگر نائجیریا جیسا ملک دنیا کو حیران کر سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں؟
ہمیں اپنی سوچ اور رویہ بدلنا ہوگا۔ ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ دنیا کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے صرف طاقت یا اسلحہ کافی نہیں، کردار کی طاقت زیادہ اہم ہے۔ ہمیں خود کو ایک باوقار قوم کے طور پر پیش کرنے کے لیے خود اپنی اصلاح کرنی ہوگی۔ اس کا آغاز فرد سے ہوگا، معاشرے تک جائے گا، اور پھر ریاست کی پالیسیوں میں جھلکے گا۔
قرض لینا غلط نہیں، واپس نہ کرنا غلط ہے
دنیا کا ہر ملک کسی نہ کسی موقع پر قرض لیتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک بھی قرض لیتے ہیں، مگر وہ اسے اپنی ذمہ داری سمجھ کر وقت پر واپس کرتے ہیں۔ قرض لینا مجبوری ہو سکتی ہے، مگر اس کی واپسی غیرت کا تقاضا ہے۔ نائجیریا نے قرض واپس کر کے ثابت کیا کہ اگر نیت صاف ہو تو ہر قوم قرض سے آزاد ہو سکتی ہے۔
ہمارے ہاں قرض لینا تو آسان ہے، مگر واپس کرنا یا اس پر بات کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے کاروباری، سیاستدان، اور حتیٰ کہ عام لوگ بھی قرض لے کر بھول جاتے ہیں۔ یہ روش ہمیں معاشی طور پر کمزور، اخلاقی طور پر پست، اور عالمی سطح پر بے اعتبار بناتی ہے۔
کیا ہم میں تبدیلی کی صلاحیت ہے؟
بالکل ہے! ہم نے کئی مواقع پر ثابت کیا ہے کہ جب ہم کچھ کرنے کا ارادہ کر لیں تو بڑے بڑے کارنامے انجام دے سکتے ہیں۔ زلزلہ ہو، سیلاب ہو، یا دہشتگردی کے خلاف جنگ—ہم نے ہر چیلنج کا سامنا کیا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اخلاقی میدان میں بھی اپنی صلاحیت کو ظاہر کریں۔ ہمیں خود سے وعدہ کرنا ہوگا کہ ہم اپنی بات کے سچے بنیں گے۔ جو لیں گے، وہ لوٹائیں گے۔ جو کہیں گے، اس پر عمل کریں گے۔
نئی نسل کو کیا سکھایا جائے؟
یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کو سچائی، وعدے کی پاسداری، اور قومی غیرت کا سبق دیں۔ ہم انہیں صرف ڈگریاں، موبائل فون اور انٹرنیٹ نہیں دے سکتے، ہمیں انہیں کردار بھی دینا ہوگا۔ ایک ایسا کردار جو ان کے قول و فعل میں ہم آہنگی پیدا کرے۔ جو دنیا کو یہ پیغام دے کہ یہ وہ قوم ہے جو اپنی زبان اور اپنے وعدے کی لاج رکھتی ہے۔
آخر میں ایک سوال: کیا ہم تیار ہیں؟
اب فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے۔ یا تو ہم نائجیریا جیسے ملکوں سے سبق سیکھ کر ایک باعزت قوم بن سکتے ہیں، یا پھر خودفریبی، جھوٹ، اور ٹال مٹول کے دائرے میں گھومتے رہیں گے۔ اگر نائجیریا جیسی قوم دنیا کو حیران کر سکتی ہے، تو ہم کیوں نہیں؟
ہمیں صرف اپنی نیت، سوچ، اور عمل کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ ہم جب وعدہ نبھائیں گے تو دنیا ہمیں عزت دے گی۔ جب ہم ذمہ داری قبول کریں گے تو دنیا ہمیں سراہنے لگے گی۔ جب ہم خود کو بدلیں گے تو آنے والی نسلوں کو بہتر ملک دے سکیں گے۔
0 Comments