حیدرآباد دکن کی مشہور اور تاریخی کراچی بیکری پر حالیہ حملہ صرف ایک دکان پر نہیں بلکہ تہذیب، برداشت اور مشترکہ ورثے پر حملہ ہے۔ یہ حملہ اس سوچ پر ہے جو مذہب اور سرحدوں کے پار بھی محبت، ذائقے اور روایت کو زندہ رکھتی ہے۔
کراچی بیکری کا نام وہ سندھی ہندو خاندان لایا جو 1947 کے بعد ہجرت کر کے بھارت آئے اور اپنے ماضی، اپنے شہر اور اپنی یادوں سے جڑا یہ نام ایک بیکری کو دے دیا۔ برسوں سے یہ بیکری حیدرآباد، بنگلور اور دیگر شہروں میں لوگوں کو بہترین کیک، پیسٹریز، بسکٹ اور مٹھائیاں فراہم کرتی رہی ہے۔
مگر اب، بھارت میں تنگ نظری اور نفرت کی سیاست اتنی غالب آ چکی ہے کہ "کراچی" جیسے لفظ سے بھی انتہا پسندوں کو نفرت ہونے لگی ہے۔
نام پر اعتراض کیوں؟
یہ سوال ہر ذی شعور شخص کے ذہن میں آتا ہے کہ اگر ایک دکان کا نام "کراچی بیکری" ہے تو اس پر اتنا شور کیوں؟
کراچی بیکری کے مالکان بھارتی شہری ہیں۔ ان کا پاکستان سے کوئی عملی تعلق نہیں۔ ان کی پہچان ایک محنتی تاجر کے طور پر ہے، جنہوں نے صرف ذائقے کے بل بوتے پر یہ نام مقبول بنایا۔ مگر انتہا پسندوں کے نزدیک، اگر کسی چیز میں "کراچی" یا "پاکستان" کا ذکر ہو تو وہ ملک دشمنی بن جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ 2019 میں بھی بنگلور کی کراچی بیکری پر حملہ ہوا، نعرے لگائے گئے اور نام تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ اب پھر حیدرآباد کی کراچی بیکری کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ رویہ صرف اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ آج کا بھارت عدم برداشت اور نفرت کے ایک ایسے موڑ پر کھڑا ہے، جہاں محبت، تہذیب، اور تاریخ کو کچلا جا رہا ہے۔
اب ذرا پاکستان کی طرف نظر دوڑائیں۔
پاکستان میں آج بھی بے شمار دکانیں اور مقامات ایسے ناموں سے منسوب ہیں جو بھارت کے شہروں، ذائقوں اور ثقافت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ حیدرآباد، سندھ کی مشہور بمبئی بیکری، جو اپنے کافی کیک اور مٹھائیوں کی وجہ سے پورے پاکستان میں مشہور ہے، آج بھی اپنے اصل نام کے ساتھ موجود ہے۔ لوگوں کو اس نام سے کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔
اسی طرح کراچی میں دہلی حلیم، دہلی قورما، دہلی نہاری، بنارسی بریانی، بنارسی کپڑے، مدراسی کھانے، میرٹھ کے کباب – سب بے حد مقبول ہیں۔ ان دکانوں یا کھانوں کے نام کو لے کر کبھی کسی مذہبی یا قومی بنیاد پر نفرت نہیں پھیلائی گئی۔ نہ کسی پر حملہ ہوا، نہ کسی پر مقدمہ۔
یہی وہ فرق ہے جو بھارت اور پاکستان کے عام لوگوں کی سوچ میں موجود ہے۔ عام انسان ذائقہ، محبت اور روایت دیکھتا ہے – سیاستدان صرف مذہب اور نفرت۔
کیا نام بدلنے سے تاریخ مٹ جائے گی؟
یہ سوچنا کہ کراچی بیکری کا نام بدلنے سے نفرت کم ہو جائے گی، بالکل ویسا ہی ہے جیسے یہ کہنا کہ کسی دریا کا نام بدل کر اس کا بہاؤ روکا جا سکتا ہے۔ نام بدلے جا سکتے ہیں، مگر جذبات، تاریخ اور یادیں نہیں بدلتیں۔
"کراچی" کوئی گالی نہیں، بلکہ ایک شہر کا نام ہے۔ ایک ایسا شہر جس نے لاکھوں لوگوں کو پناہ دی، جس کی یاد میں کئی لوگ بھارت میں آج بھی نم آنکھوں سے بات کرتے ہیں۔ اور یہی جذبہ تو تہذیب کہلاتا ہے۔
بھارتی سیکولرازم کا زوال
بھارتی آئین کے مطابق، بھارت ایک سیکولر ریاست ہے۔ مگر آج کل جو کچھ بھارت میں ہو رہا ہے، وہ اس آئین کے منہ پر طمانچہ ہے۔ وہاں مذہبی اقلیتوں کو کھانے پینے، لباس، عبادت، حتیٰ کہ کاروبار اور نام رکھنے کی آزادی بھی چھینی جا رہی ہے۔
کراچی بیکری کا معاملہ صرف ایک مثال ہے۔ اس سے پہلے تاج محل، مغل سرائے، اورنگزیب روڈ، اور دیگر درجنوں تاریخی، ثقافتی اور تعلیمی ادارے اس نفرت کی لپیٹ میں آ چکے ہیں۔
یہ سب صرف اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ اکثریت کو خوش کیا جا سکے، اور اقلیتوں کو یہ باور کروایا جائے کہ اب ان کا ماضی، ان کی پہچان اور ان کا وجود بھی خطرے میں ہے۔
ذائقہ، تہذیب، اور محبت پر حملہ
کراچی بیکری پر حملہ دراصل ایک بڑے حملے کی علامت ہے۔ یہ اس سوچ پر حملہ ہے جو کہتی ہے کہ "ہم سب ایک جیسے ہیں"۔ یہ اس جذبے کو کچلنے کی کوشش ہے جو سرحدوں سے آزاد ہو کر محبت بانٹتا ہے۔
کراچی بیکری کا ذائقہ صرف ایک بیکری نہیں، بلکہ ایک تہذیب کا ذائقہ ہے – وہ تہذیب جس نے صدیوں تک ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، سب کو ایک میز پر بٹھا کر کھلایا۔ آج اسی تہذیب کو مٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟
ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ نفرت کا جواب صرف محبت سے ہی دیا جا سکتا ہے۔ اگر ایک دکان کے نام سے نفرت ہو تو اسے گالیاں دینے کے بجائے، اس کے ذائقے کو آزمانا چاہیے۔ اگر ایک شہر کی یاد کسی کو پیاری ہے تو اسے چھیننے کے بجائے، بانٹنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
کراچی بیکری نے کوئی جرم نہیں کیا۔ اس نے صرف یہ یاد دلانے کی کوشش کی کہ محبت، ذائقے، اور روایتیں سرحدوں سے بڑی ہوتی ہیں۔
نام نہیں، نظریہ خطرناک ہے
مسئلہ کراچی بیکری کا نام نہیں، مسئلہ اس سوچ کا ہے جو سب کچھ مذہب اور قوم پرستی کی عینک سے دیکھتی ہے۔ اگر یہی سوچ غالب آتی گئی، تو صرف کراچی بیکری ہی نہیں، بلکہ تہذیب، برداشت، اور امن کا ہر نشان ختم ہوتا جائے گا۔
یہ وقت ہے کہ بھارت جیسے بڑے ملک کو خود سے سوال کرنا چاہیے کہ وہ کس سمت جا رہا ہے؟ کیا وہ واقعی ایک سیکولر، جمہوری ملک ہے؟ یا پھر ایک ایسی ریاست بنتا جا رہا ہے جہاں صرف نفرت کی زبان چلتی ہے؟
کراچی بیکری ایک علامت ہے — محبت کی، برداشت کی، اور اس تہذیب کی جو سرحدوں سے بڑی ہے۔
0 Comments