جنگی جنون یا خودکشی؟
بھارت نے ایک بار پھر وہی راستہ چن لیا ہے جو طاقت کے نشے میں مست قومیں اکثر چنتی ہیں — جنگ! پراکسی جنگوں، دہشتگرد نیٹ ورکس، اور سفارتی محاذ پر ناکامی کے بعد اب بھارت نے کھلے عام عسکری جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف اپنی ساکھ کو داؤ پر لگا دیا ہے بلکہ پورے خطے کو تباہ کن صورتحال کی جانب دھکیل دیا ہے۔
یہ صرف ایک عسکری کارروائی نہیں، بلکہ ایک ایسے جنگی جنون کا اعلان ہے جو بھارتی حکومت کی اندرونی ناکامیوں کو چھپانے کی ناکام کوشش ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا بھارت کو اندازہ ہے کہ وہ کیا کرنے جا رہا ہے؟ شاید نہیں!
کشمیر: وہ چنگاری جو شعلہ بن چکی ہے
بھارت کے دل میں ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ وہ آزاد کشمیر کو اپنا حصہ بنا لے، مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ وہ آج تک مقبوضہ کشمیر میں ہی امن قائم نہیں کر سکا۔ نہتے کشمیریوں کی تحریکِ آزادی روز بروز زور پکڑ رہی ہے۔ انسانی حقوق کی پامالیاں، بے گناہوں کی گرفتاریاں، اور پیلٹ گنز کا استعمال بھارت کے چہرے کو دنیا کے سامنے بے نقاب کر چکا ہے۔
اب جبکہ بھارت نے عسکری کارروائیوں کا راستہ چن لیا ہے، تو یہ چنگاری صرف کشمیر تک محدود نہیں رہے گی۔ ناگا لینڈ، منی پور، آسام اور خالصتان کی تحریکیں بھی اس جنگی ماحول میں ایک نئی طاقت حاصل کر سکتی ہیں۔
اندرونی مسائل کا بیرونی حل: مودی سرکار کی چالاکی
نریندر مودی کی حکومت اس وقت شدید داخلی دباؤ کا شکار ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری، کسانوں کے احتجاج، اور اقلیتوں کے خلاف ظلم و ستم نے بی جے پی کی عوامی مقبولیت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ ایسے میں ایک دشمن کی تخلیق، اور جنگی ماحول کا پیدا کیا جانا، ہمیشہ سے حکومتوں کا پرانا ہتھکنڈا رہا ہے۔ مگر اس بار معاملہ معمولی نہیں۔
بھارت نے جنگ چھیڑ کر ایک ایسا کھیل شروع کر دیا ہے جس کا انجام وہ خود بھی نہیں جانتا۔ یہ جنگ اگر صرف میدان جنگ تک محدود رہتی تو شاید تباہی کچھ قابو میں رہتی، مگر یہ جنگ اب نظریات کی، شناخت کی اور انسانیت کی بقا کی جنگ بن چکی ہے۔
عالمی ردعمل: خاموشی یا شراکت؟
اقوامِ متحدہ، او آئی سی، اور دیگر عالمی طاقتیں اس صورتِ حال پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ دنیا کی یہ خاموشی صرف بھارت کو مزید شہ دے رہی ہے۔ جب فلسطین کی طرح کشمیر کے مظلوموں کو بھی نظرانداز کیا جاتا ہے، تو عالمی انصاف کا معیار مشکوک ہو جاتا ہے۔
اگر بھارت کو اسی طرح کھلی چھوٹ دی گئی تو مستقبل قریب میں یہ جنگ کسی ایک سرحد پر نہیں رکے گی، بلکہ جنوبی ایشیا سمیت عالمی امن کے لیے ایک سنگین خطرہ بن جائے گی۔
پاکستانی مؤقف: دفاع کا حق اور تحمل کی حد
پاکستان نے ہمیشہ امن کی کوششوں کو ترجیح دی ہے، چاہے وہ کرتارپور راہداری ہو یا سفارتی محاذ پر بھارت سے بات چیت۔ مگر بھارت کی موجودہ جارحیت نے پاکستان کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ اپنا دفاع کرے — اور پاکستان کی عسکری و عوامی قوت کو کوئی بھی کم نہ سمجھے۔
پاکستان کے عوام، سیاسی قیادت، اور فوج سب ایک پیج پر ہیں۔ یہ اتحاد بھارت کے لیے ایک ناقابل تسخیر دیوار بن سکتا ہے۔ اگر جنگ مسلط کی گئی تو پاکستان صرف دفاع نہیں کرے گا، بلکہ ظالم کے گھر تک پہنچ کر حساب چکائے گا۔
نئی جنگ، نیا انجام
یہ جنگ پرانی نہیں، اس کے مقاصد اور اثرات دونوں نئے ہیں۔ اس بار صرف توپ و تفنگ نہیں، سوشل میڈیا، عالمی بیانیہ، سفارتی محاذ، اور عوامی جدوجہد بھی میدان میں ہیں۔ بھارت کو سمجھنا ہوگا کہ جنگ جیتنے کے لیے صرف ہتھیار کافی نہیں، سچائی، جذبہ، اور مظلوموں کی حمایت بھی درکار ہوتی ہے — اور ان سب کا پلڑا بھارت کے خلاف ہے۔
انجام: بھارت کو کیا بھگتنا پڑے گا؟
اگر یہ جنگ طول پکڑتی ہے تو بھارت کو کئی محاذوں پر شکست کا سامنا کرنا پڑے گا:
معاشی بربادی: جنگی اخراجات، عالمی بائیکاٹ، اور سیاحتی شعبے کی تباہی بھارت کی معیشت کو ہلا کر رکھ دے گی۔
سفارتی تنہائی: اقوامِ متحدہ اور مغربی دنیا میں بھارت کی پوزیشن کمزور پڑے گی۔
عوامی بغاوت: اندرونی تحریکیں شدت پکڑیں گی اور مودی سرکار کی بنیادیں ہل سکتی ہیں۔
علاقائی شکست: اگر بھارت کشمیر میں کامیاب نہیں ہو سکا تو وہ آزاد کشمیر یا پاکستان کے خلاف کسی بھی محاذ پر کامیابی حاصل نہیں کر سکتا۔
آخری پیغام: جنگ کا آغاز بھارت نے کیا ہے، اختتام کوئی اور کرے گا
دنیا کو اب جاگنا ہوگا۔ بھارت کو اس کے جنون سے روکنا ہوگا۔ ورنہ یہ جنگ صرف دو ممالک کے درمیان نہیں رہے گی، بلکہ عالمی تباہی کا پیش خیمہ بن جائے گی۔
یہ وقت ہے کہ سچ کو آواز دی جائے، ظلم کو بے نقاب کیا جائے، اور بھارت کو آئینہ دکھایا جائے کہ اب وہ وقت گزر چکا جب طاقتور مظلوم کو دبا لیا کرتے تھے، اب ہر آواز سوشل میڈیا سے عالمی پلیٹ فارمز تک گونجتی ہے، اور یہ آواز بھارت کی نیندیں حرام کرنے کے لیے کافی ہے۔
0 Comments