وقف کیا ہے اور یہ کیوں اہم ہے؟
وقف اسلامی تعلیمات کا ایک خوبصورت تصور ہے جس کے تحت مسلمان اپنی زمین، دکان یا دیگر جائیداد اللہ کی راہ میں دے دیتے ہیں۔ اس کا مقصد غرباء، مساجد، مدارس، یتیم خانے اور دیگر فلاحی اداروں کی مدد کرنا ہوتا ہے۔ برصغیر کی تاریخ میں وقف کا نظام ہمیشہ مسلمانوں کی تعلیم، صحت اور روزگار کے لیے سہارا بنتا رہا ہے۔ یہ ادارے معاشرے میں توازن قائم رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔ وقف کا تصور روحانی بھی ہے اور سماجی بھی، اور اسے ہمیشہ سرکاری مداخلت سے محفوظ سمجھا جاتا رہا ہے۔ لیکن اب یہی نظام خطرے میں ہے کیونکہ بھارت میں ایک نیا متنازع بل پیش کیا گیا ہے۔
بھارت کے نام نہاد سیکولر چہرے کو اس معاملے نے بے نقاب کر دیا ہے۔ اقلیتوں کی عبادات اور فلاحی سرگرمیاں سرکاری گرفت میں آتی جا رہی ہیں۔ وقف کا نظام ہمیشہ مذہبی ہم آہنگی کی علامت رہا ہے، جو اب خطرے میں ہے۔
وقف ترمیمی بل 2023: اصل مسئلہ کیا ہے؟
بھارت میں پیش کیا گیا وقف ترمیمی بل 2023، وقف جائیدادوں پر دوبارہ جانچ پڑتال اور سروے کا حکم دیتا ہے۔ اس سے خدشہ ہے کہ بہت سی جائیدادیں وقف کی فہرست سے نکال دی جائیں گی۔ اس بل کے ذریعے حکومت مقامی اداروں یا نجی کمپنیوں کو وقف زمین لیز پر دینے کی اجازت دینا چاہتی ہے۔ یہ بات وقف کے اصل مقصد اور تقدس کے خلاف ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ وہ شفافیت لا رہی ہے، مگر اقلیتیں اسے اپنے مذہبی حقوق پر حملہ سمجھتی ہیں۔ ساتھ ہی وقف بورڈز کی آزادی کو بھی محدود کیا جا رہا ہے، جس سے مسلمانوں کے لیے یہ صورتحال مزید سنگین ہو گئی ہے۔
یہ بل دراصل اقلیتوں کو کمزور کرنے کی ایک کوشش ہے تاکہ وہ سماجی سطح پر پیچھے رہ جائیں۔ اس اقدام سے بھارت کی جمہوریت اور سیکولرزم کے دعووں پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ مذہبی آزادی کے اس کھلے حملے پر عالمی برادری کی خاموشی بھی قابلِ غور ہے۔
مسلمانوں پر براہ راست اثرات
یہ بل سب سے زیادہ بھارت کے مسلمانوں کو متاثر کرے گا کیونکہ وقف کی زیادہ تر جائیدادیں انہی کے زیرِ انتظام ہیں۔ ان جائیدادوں پر مدارس، مساجد اور فلاحی ادارے قائم ہیں جو لاکھوں لوگوں کو فائدہ دیتے ہیں۔ اگر حکومت ان جائیدادوں کو اپنے قبضے میں لے لیتی ہے یا پرائیویٹ کمپنیوں کو دے دیتی ہے تو تعلیمی ادارے، یتیم خانے اور رفاہی خدمات بند ہو جائیں گی۔ مسلمانوں کی ترقی کا دروازہ بند ہو جائے گا اور وہ مزید پسماندگی کا شکار ہو سکتے ہیں۔
پہلے ہی مسلمانوں کو تعلیمی اور معاشی لحاظ سے پسماندہ رکھا گیا ہے۔ اب ان کے اداروں پر قبضے کی تیاری ہو رہی ہے۔ یہ اقدام بھارتی آئین کی روح کے بھی خلاف ہے۔
مودی حکومت کی پالیسی کا رخ
نریندر مودی کی حکومت پچھلے چند سالوں سے اقلیتوں کے خلاف سخت رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ بابری مسجد، شہریت قانون، اور حجاب پر پابندی جیسے فیصلے اس پالیسی کا حصہ ہیں۔ ان تمام اقدامات سے اقلیتوں کو یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ بھارت اب صرف اکثریت کا ملک ہے۔ وقف ترمیمی بل اسی سلسلے کی ایک اور کڑی ہے۔
یہ اقلیتوں کے مذہبی، سماجی اور قانونی حقوق کو کمزور کرنے کی ایک منظم کوشش ہے۔ حکومت کا مقصد اکثریتی طبقے کو خوش کرنا اور اقلیتوں کو خاموش رکھنا ہے۔ نام نہاد سیکولر بھارت کی یہ تصویر دنیا کے سامنے واضح ہوتی جا رہی ہے۔ اقلیتوں کے جذبات، مذہبی احساسات اور بنیادی حقوق سب کو روندنے کا عمل جاری ہے۔
مسلمانوں کو 'کشاندار' کیوں بنایا جا رہا ہے؟
"کشاندار" یعنی ایسا طبقہ جو بے ضرر، خاموش اور غیر مؤثر ہو۔ بھارتی حکومت مسلمانوں کو جان بوجھ کر اسی زمرے میں لانا چاہتی ہے۔ انہیں یا تو دہشت گرد کے طور پر پیش کیا جاتا ہے یا اتنا مظلوم کہ وہ احتجاج بھی نہ کر سکیں۔ میڈیا بھی اس منفی تاثر کو مزید بڑھاتا ہے۔
وقف جیسے ادارے جب کمزور ہوں گے تو مسلمانوں کی آواز مزید دب جائے گی۔ یہ ایک نفسیاتی جنگ ہے جس کا مقصد ہے کہ مسلمان اپنے حقوق کے لیے کھڑے نہ ہو سکیں۔ اس منصوبے کا ایک حصہ اقلیتوں کی ذہنی کمزوری پیدا کرنا بھی ہے۔ ان کے تعلیمی اداروں پر وار کر کے سوچنے اور سمجھنے کی طاقت چھینی جا رہی ہے۔ بھارت کے سیکولر آئین کے باوجود یہ سب کھلم کھلا ہو رہا ہے۔
اپوزیشن کی خاموشی: ایک افسوسناک پہلو
افسوس کی بات یہ ہے کہ بھارتی اپوزیشن جماعتیں جیسے کانگریس، وقف بل جیسے حساس معاملے پر خاموش ہیں۔ وہ شاید اکثریتی ووٹ بینک کو ناراض نہیں کرنا چاہتیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ کھل کر کھڑی نہیں ہوتیں۔ جب اپوزیشن کمزور ہو تو حکومت کو من مانی کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔
یہ جمہوریت کے لیے خطرناک بات ہے۔ اگر اپوزیشن نے آواز نہ اٹھائی تو مستقبل میں مزید اقلیتیں نشانے پر ہوں گی۔ کانگریس اور دیگر سیکولر جماعتوں کی خاموشی ان کے دوہرے معیار کو ظاہر کرتی ہے۔ جو جماعتیں ماضی میں اقلیتوں کے محافظ کہلاتی تھیں، آج خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ ان کی خاموشی حکومت کی بالواسطہ حمایت بن چکی ہے۔
راہول گاندھی کہاں کھڑے ہیں؟
راہول گاندھی نے "بھارت جوڑو یاترا" کے ذریعے عوام سے جڑنے کی کوشش تو کی، مگر وقف جیسے معاملے پر ان کی خاموشی سوالیہ نشان ہے۔ اگر وہ واقعی سب کے بھارت کی بات کرتے ہیں تو اقلیتوں کے حق میں بولنا ہوگا۔ سیاسی مصلحتیں ایک طرف، لیکن انصاف اور حق کے لیے آواز اٹھانا ان کا فرض ہے۔
راہول گاندھی جیسے رہنما کی خاموشی خود ان کی سیاسی ساکھ کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ ان کے والد اور دادی اقلیتوں کے ساتھ کھڑے رہے، لیکن راہول کی خاموشی سوالات کو جنم دے رہی ہے۔ اگر وہ آج نہ بولے تو کل عوام ان سے بھی سوال کرے گی۔
یہ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں
وقف ترمیمی بل صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں، بلکہ ہر اس شخص کا مسئلہ ہے جو انصاف، مساوات اور جمہوریت پر یقین رکھتا ہے۔ مذہبی آزادی خطرے میں ہے، اور اگر آج آواز نہ اٹھائی گئی تو کل کوئی اور اقلیت نشانے پر ہو گی۔
یہ وقت اتحاد کا ہے، سب کو مل کر اس قانون کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا۔ عدالتوں، میڈیا، اور عوامی تحریکوں کے ذریعے حکومت پر دباؤ ڈالنا ہوگا۔ بھارت کا آئین ہر شہری کو برابر کے حقوق دیتا ہے، لیکن آج وہ صرف ایک کتاب میں درج لگتے ہیں۔ اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک نے بھارت کی جمہوری بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ہمیں اس کے خلاف متحد ہونا ہوگا۔
آگے کا راستہ کیا ہے؟
اگر یہ قانون منظور ہو گیا تو عدالتیں، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور عوامی تحریکیں ہی امید کی کرن ہوں گی۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے ادارے مضبوط کریں، میڈیا میں سچائی بیان کریں، اور قانونی سطح پر اس بل کو چیلنج کریں۔ انہیں دیگر اقلیتوں اور انصاف پسند طبقوں کو ساتھ ملا کر ایک متحد تحریک کھڑی کرنی چاہیے۔
0 Comments