ہیڈ لائنز

زکوٰۃ، صدقات اور عطیات: غربت کا علاج یا پیشہ ور بھکاریوں کی افزائش؟

 


اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، جو انسان کی جسمانی، روحانی اور معاشی فلاح کا ضامن ہے۔ زکوٰۃ، صدقات اور عطیات کا تصور اسی نظام کا اہم جزو ہے۔

اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کو فرض کرکے معاشرے کے مستحق افراد کی مدد کا ایک ایسا نظام قائم کیا جس کا مقصد صرف وقتی ریلیف دینا نہیں تھا، بلکہ انہیں اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا، عزتِ نفس بحال کرنا، اور مستقل معاشی خود کفالت کی طرف لانا تھا۔

مگر افسوس کہ آج ہماری زکوٰۃ اور صدقات کی تقسیم کا انداز اس عظیم مقصد کے برعکس نتائج دے رہا ہے۔


اسلامی تصورِ زکوٰۃ اور عملی حقیقت


زکوٰۃ کا بنیادی مقصد غربت کو جڑ سے ختم کرنا تھا۔ قرآن مجید میں واضح ہدایت ہے کہ زکوٰۃ کے مستحق وہ لوگ ہیں جو تنگدستی میں مبتلا ہوں، مگر ان کے اندر محنت کرنے کی صلاحیت ہو۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی فرمایا:

"اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے"

یعنی جو ہاتھ دیتا ہے، وہ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔


اسلام نے کبھی یہ نہیں سکھایا کہ لوگ ہاتھ پھیلانا اپنی عادت بنالیں۔ بلکہ تعلیم دی کہ جب کسی کو تھوڑی سی مدد مل جائے، تو وہ اسے اپنے حالات بہتر کرنے کے لیے استعمال کرے، نہ کہ ہر سال نئے کپڑے اور عید کے راشن کے انتظار میں بیٹھا رہے۔


مگر آج ہماری حالت یہ ہے کہ رمضان المبارک آتے ہی مخصوص طبقہ زکوٰۃ، صدقات اور عطیات کے نام پر دست سوال دراز کرتا نظر آتا ہے۔

بازاروں، گلیوں، اور مساجد کے باہر لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں۔

کئی جگہوں پر باقاعدہ خاندان در خاندان پیشہ ورانہ بھیک مانگنے کا "کاروبار" بن چکا ہے۔


طریقہ کار میں خامیاں


ہم زکوٰۃ دیتے ہیں مگر حکمت کے ساتھ نہیں۔

اکثر لوگ صرف اپنی تسلی یا رواج پورا کرنے کے لیے رقوم بانٹ دیتے ہیں، بغیر یہ دیکھے کہ جسے مدد دی جارہی ہے، اس کی اصل ضرورت کیا ہے۔

نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہی چہرے ہر سال ہماری فہرست میں ہوتے ہیں، اور ان کی حالت میں کوئی بہتری نہیں آتی۔


کچھ ادارے جو زکوٰۃ اکٹھی کرتے ہیں، وہ بھی صرف راشن بیگ یا نقدی بانٹ کر اپنی ذمہ داری پوری سمجھ لیتے ہیں۔

کیا کبھی ہم نے سوچا کہ یہ راشن ایک ماہ میں ختم ہو جائے گا، اور اس کے بعد ان کا کیا ہوگا؟


اصلاح کیسے ہو سکتی ہے؟


اصلاح کا پہلا قدم نیت کی درستگی ہے۔

زکوٰۃ اور صدقات کا مقصد صرف وقتی مدد نہیں، بلکہ مستقل بہتری پیدا کرنا ہے۔


ہمیں چاہیے کہ:


ضرورت مندوں کو فوری نقدی یا راشن دینے کے بجائے انہیں چھوٹے کاروبار کے لیے وسائل فراہم کریں۔


ہنر سکھانے کے کورسز میں ان کی مدد کریں، جیسے درزی، الیکٹریشن، بیوٹیشن، وغیرہ۔


ان کے بچوں کو تعلیم کے اخراجات اٹھا کر آنے والی نسلوں کو بھکاری بننے سے بچائیں۔


مستقل فالو اپ کریں کہ جنہیں مدد دی گئی ہے، وہ کہاں تک پہنچے۔



روزمرہ کی مثالیں


کراچی کے ایک چھوٹے علاقے میں "امینہ بی بی" نے سالہا سال زکوٰۃ کی رقم سے گزارا کیا۔

ہر سال رمضان میں لوگ اسے پیسے اور راشن دیتے رہے۔

لیکن ایک نوجوان نے ایک سال اسے دو سلائی مشینیں دلوا دیں اور مقامی مارکیٹ سے آرڈر دلانے میں مدد کی۔

آج وہ خود کمانے والی خاتون ہے اور دوسروں کی مدد بھی کرتی ہے۔

یہی زکوٰۃ کا اصل روح ہے!


اسی طرح لاہور میں ایک نوجوان "بلال" جو پہلے رمضان میں راشن لینے کے لیے لائنوں میں لگتا تھا، اسے ایک فلاحی ادارے نے موبائل مرمت کا کورس کروا کر ایک چھوٹی دکان کھلوا دی۔

آج وہ اپنے ماں باپ کی عزت سے کفالت کرتا ہے اور کبھی بھی دوبارہ کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا۔


اصل تبدیلی کیسے آئے گی؟


جب ہم صرف راشن نہیں، بلکہ عزت دیں گے۔

جب ہم فوری مدد نہیں، مستقل روزگار مہیا کریں گے۔

جب ہم محتاجی کو ختم کرنے کا جذبہ اپنے اندر پیدا کریں گے۔


ایک بیکار امداد سے بہتر ہے کہ ہم کسی کو ہنر مند بنا دیں۔

اسلام نے بھیک مانگنے کو پسند نہیں کیا، محنت کو پسند کیا ہے۔


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

"جو شخص اپنی محنت سے کمائے اور کھائے، اللہ اس سے محبت کرتا ہے۔"


تو کیوں نہ ہم اپنی زکوٰۃ اور صدقات کو حقیقی روح کے ساتھ استعمال کریں؟



آج اگر ہم اپنے اردگرد پھیلی ہوئی بھکاریوں کی فوج دیکھ کر افسوس کرتے ہیں، تو ہمیں اپنے زکوٰۃ، صدقات اور عطیات کے طریقہ کار پر بھی نظر ثانی کرنی ہوگی۔

محض روایتی انداز میں دینے سے غربت ختم نہیں ہوگی بلکہ پیشہ ور بھکاریوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہے گا۔

آئیں، مل کر زکوٰۃ، صدقات اور عطیات کا وہ مقصد دوبارہ زندہ کریں جس کی بنیاد پر اسلامی معاشرہ دنیا میں مثال بنا تھا:

"غربت کا خاتمہ، خود داری کا فروغ، اور محنت کی عظمت!"

0 Comments

کومنٹس

Type and hit Enter to search

Close