ہیڈ لائنز

نوجوانوں کا کھویا ہوا سفر: راہنمائی کی کمی یا نظام کی کوتاہی؟

 

نوجوان کسی بھی قوم کا روشن چہرہ، طاقت اور مستقبل کی امید ہوتے ہیں۔ قومیں انہی نوجوانوں کے خوابوں، ہنر اور جذبوں سے ترقی کی منزلیں طے کرتی ہیں۔ لیکن جب وہی نوجوان منزل کا تعین نہ کر سکیں، الجھنوں کا شکار ہوں، اور معاشرہ انہیں سمت دینے میں ناکام ہو جائے، تو ایک پوری نسل صرف وقت کے دھارے میں بہہ جاتی ہے۔ آج پاکستان سمیت دنیا کے کئی ترقی پذیر ممالک کا یہی المیہ ہے۔


ہمارے نوجوان تعلیم تو حاصل کر رہے ہیں، لیکن انہیں نہ اپنی منزل کا علم ہے، نہ اس تک پہنچنے کا راستہ۔ وہ بظاہر مصروف نظر آتے ہیں، لیکن ذہنی و عملی طور پر منتشر اور بے سمت ہیں۔ کسی کو پتہ نہیں کہ وہ کس فیلڈ میں جانا چاہتا ہے، کس کام کے لیے موزوں ہے، یا دنیا میں اس کی اصل جگہ کیا ہے؟


کیریئر کونسلنگ کی کمی — ایک خاموش بحران


ہمارے تعلیمی اداروں میں "کیریئر کونسلنگ" جیسا اہم شعبہ تقریباً ناپید ہے۔ اکثر نوجوان صرف رٹہ سسٹم، امتحان، اور نمبرات کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ انہیں یہ کوئی نہیں بتاتا کہ:


تمہارے اندر کس فطری صلاحیت کا جوہر ہے؟


کون سا پیشہ تمہارے مزاج سے میل کھاتا ہے؟


آج کی دنیا میں کس فیلڈ کا مستقبل ہے؟


جب کسی طالبعلم کو اس کی قابلیت کے مطابق راہنمائی نہیں دی جاتی، تو وہ یا تو دوسروں کی دیکھا دیکھی فیصلے کرتا ہے، یا والدین کی مرضی کے آگے خاموش ہو جاتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دل نہ لگنے کے باعث وہ فیلڈ میں ناکام ہو جاتا ہے اور زندگی میں پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں بچتا۔


والدین اور بچوں کے درمیان کمیونیکیشن گیپ


ہمارے معاشرے میں اب بھی والدین بچوں کی رائے کو سننے اور سمجھنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ وہ اپنے خواب، اپنی محرومیاں، یا معاشرتی توقعات بچوں پر مسلط کر دیتے ہیں۔

"بیٹا ڈاکٹر ہی بننا ہے"، "انجینئر بنو گے تو لوگ داد دیں گے" —

یہ جملے عام ہیں، لیکن ان کے پیچھے بچوں کی ذات، ان کے خواب اور ان کی دلچسپیاں کچل جاتی ہیں۔


نتیجتاً، بچوں میں احساسِ بغاوت، تنہائی اور بے چینی جنم لیتی ہے۔ وہ اپنی زندگی کے اہم فیصلے چھپ کر کرنے لگتے ہیں، یا پھر مایوسی کا شکار ہو کر زندگی کے کسی کونے میں دبک جاتے ہیں۔


سوشل پریشر، تقابلی ماحول اور ذہنی دباؤ


نوجوانوں کے ذہنوں پر سب سے زیادہ اثر "سوشل پریشر" کا ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا نے اس دباؤ کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔

"وہ یوٹیوبر بن گیا"، "اس کے پاس گاڑی ہے"، "اس کی تصویر وائرل ہوئی"، "میں کہاں کھڑا ہوں؟"

یہ سوال نوجوان کے ذہن کو کھا جاتے ہیں۔


دوسروں کی کامیابی کو اپنا ناکامی سمجھنے کا رجحان اتنا بڑھ گیا ہے کہ نوجوان ذہنی دباؤ، احساسِ کمتری اور اعتماد کی کمی کا شکار ہو رہے ہیں۔ وہ صرف دوسروں کی کامیابی دیکھتے ہیں، اس کے پیچھے کی محنت اور جدوجہد کو نہیں۔


کمفرٹ زون اور ناکامی کا خوف


نوجوانوں میں ایک بڑا مسئلہ "کمفرٹ زون" میں رہنا ہے۔

وہ چاہتے ہیں کہ کامیابی آسان ہو، بغیر رسک، بغیر تھکن۔

لیکن سچ یہ ہے کہ کمفرٹ زون میں رہنے والا انسان ترقی نہیں کر سکتا۔


کامیابی انہی لوگوں کو ملتی ہے جو اپنے آرام دہ دائرے سے باہر نکلتے ہیں، رسک لیتے ہیں، اور ناکامی سے سبق سیکھ کر آگے بڑھتے ہیں۔

"جو گرنے سے ڈرتا ہے، وہ اڑان نہیں بھر سکتا" — یہ قول آج کے نوجوانوں پر پوری طرح لاگو ہوتا ہے۔


ٹریننگ، انٹرن شپ، اور گائیڈ لائن کی عدم دستیابی


ترقی یافتہ ممالک میں نوجوانوں کی شخصیت سازی، پیشہ ورانہ تربیت، اور انٹرن شپ پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ وہ صرف کتابی تعلیم پر انحصار نہیں کرتے بلکہ نوجوانوں کو عملی میدان میں بھی تیار کرتے ہیں۔


ہمارے ہاں تعلیم کے ساتھ ہنر نہیں سکھایا جاتا۔ بی اے، ایم اے کی ڈگریاں ہاتھ میں ہوتی ہیں لیکن عملی دنیا میں کام کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔

تربیت گاہیں یا تو ناپید ہیں یا اتنی مہنگی کہ ایک عام نوجوان کی دسترس سے باہر۔


ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر ضلع میں کم از کم ایک سرکاری کیریئر گائیڈنس سنٹر قائم ہو، جہاں نوجوانوں کو نہ صرف فیلڈ کے مطابق رہنمائی دی جائے بلکہ انہیں موجودہ مارکیٹ ٹرینڈز سے بھی آگاہ کیا جائے۔


اساتذہ، ادارے اور میڈیا کا کردار


اساتذہ کو صرف نصاب ختم کرنے کی نہیں، بلکہ طلبہ کی شخصیت پر کام کرنے کی تربیت دی جائے۔ ایک اچھا استاد صرف پڑھانے والا نہیں، بلکہ راہ دکھانے والا ہوتا ہے۔

اسی طرح میڈیا اور سوشل پلیٹ فارمز کو صرف تفریحی مواد سے ہٹ کر نوجوانوں کے لیے مثبت، رہنمائی پر مبنی پروگرام نشر کرنے کی ضرورت ہے۔


یوٹیوب، انسٹاگرام اور ٹک ٹاک جیسے پلیٹ فارمز پر لاکھوں نوجوان موجود ہیں۔ اگر ان پر کیریئر پلاننگ، سکل ڈیولپمنٹ، اور کامیاب نوجوانوں کے تجربات شیئر کیے جائیں، تو ایک مثبت لہر اٹھائی جا سکتی ہے۔


راہنمائی کیسے ممکن ہے؟ — چند قابلِ عمل تجاویز


سکول و کالج میں کیریئر کونسلنگ کو لازمی حصہ بنایا جائے۔


اساتذہ و والدین کے لیے تربیتی سیشن رکھے جائیں تاکہ وہ نوجوانوں کو بہتر سمجھ سکیں۔


سرکاری سطح پر فری یا سستے ٹریننگ کورسز اور انٹرن شپس متعارف کروائی جائیں۔


سوشل میڈیا پر رہنمائی اور سکل ڈیولپمنٹ کی مہمات شروع کی جائیں۔


نجی شعبے کو نوجوانوں کی تربیت میں شامل کیا جائے، خاص طور پر لوکل بزنسز اور انڈسٹریز کو۔


ہر ضلع میں یوتھ سینٹرز بنائے جائیں جہاں نوجوان مشورہ، تربیت اور رہنمائی حاصل کر سکیں۔


 نوجوانوں کی سمت درست ہو تو قوم کی سمت درست ہوتی ہے


اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری قوم ترقی کرے، تو سب سے پہلے ہمیں اپنے نوجوانوں پر توجہ دینی ہو گی۔

انہیں صرف تعلیمی ڈگری نہیں، بلکہ مقصد، سمت، ہنر اور حوصلہ دینا ہو گا۔

راہنمائی صرف لیکچرز یا تقریروں سے نہیں، بلکہ عملی اقدامات سے آتی ہے۔


وقت آگیا ہے کہ ہم نوجوانوں کے ہاتھ میں صرف موبائل فون نہیں، بلکہ فکر، وژن اور عمل کا راستہ دیں۔

ہمیں ان کے ساتھ بیٹھنا ہو گا، ان کے خواب سننے ہوں گے، ان پر یقین کرنا ہو گا — کیونکہ جب نوجوان مضبوط ہوگا، تو قوم ناقابلِ شکست ہو گی۔

0 Comments

کومنٹس

Type and hit Enter to search

Close